آیات متشابہات - امین احسن اصلاحی

آیات متشابہات

     سوال: قرآن مجید میں جو آیات متشابہات ہیں، ان کے بیان میں کیا مصلحت ہے، جبکہ وہ ہماری سمجھ اور احساس سے بالاتر ہیں؟ ہمیں معنوی لحاظ سے ان سے آخر کیا فائدہ پہنچتا ہے؟
    جواب: آیات متشابہات سے مراد قرآن مجید کی وہ آیات ہیں جن میں جنت و دوزخ اور احوال غیب کی وہ تفصیلات بیان ہوئی ہیں جن کے سمجھنے کے لیے تمثیل و تشبیہ کے سوا اور کوئی طریقہ ہی نہیں ہے۔ جہاں تک آخرت کا تعلق ہے، اس کو اصولاً سمجھ لینا تو عقلاً ممکن ہے، لیکن آخرت کے عذاب و ثواب کی تفصیلات اور لوح، قلم، کرسی، عرش اور میزان وغیرہ جیسے حقائق کو سمجھانے کے لیے اس کے سوا اور کیا راستہ ہے کہ ہماری زبان کی تعبیریں ان حقائق کی تفہیم کے لیے استعمال کی جائیں۔ لیکن یہ تعبیرات، بہرحال، تمثیل و تشبیہ کی نوعیت کی چیزیں ہیں جن سے ان کا ایک تصور تو ہمارے سامنے آ سکتا ہے، لیکن ہم یہ نہیں کہہ سکتے کہ بعینہٖ یہ حقائق ہمارے سامنے آ گئے ہیں۔
ان حقائق کے متعلق یہ کہنا کہ چونکہ یہ ہماری سمجھ اور احساس سے بالا ہیں، اس وجہ سے ان کے بیان کا سرے سے کوئی فائدہ ہی نہیں ہے، کسی طرح صحیح نہیں ہے۔ اس میں تو شبہ نہیں کہ اس بیان سے ان حقائق کی حقیقت ہماری سمجھ میں نہیں آ سکتی، لیکن ان کا ایک تصور ہمارے سامنے آتا ہے جس سے ہمارے علم میں بھی بڑا اضافہ ہوتا ہے اور ان کے اخلاقی اثرات بھی ہماری زندگیوں پر مترتب ہوتے ہیں، بشرطیکہ ہم ان پر اسی اجمال کے ساتھ ایمان لائیں جس اجمال کے ساتھ وہ بیان ہوئے ہیں۔ ان میں کوئی ٹیڑھ پیدا کرنے اور ان کی آڑ لے کر کوئی فتنہ اٹھانے کی کوشش نہ کریں۔ چنانچہ جن لوگوں کے علم میں پختگی ہوتی ہے، وہ اس طرح کی چیزوں کی زیادہ کھوج کرید میں نہیں پڑتے، بلکہ ان پر اجمالاً ایمان لاتے ہیں اور ان کی تفصیلات و کیفیات کے علم کو علم الٰہی کے حوالے کرتے ہیں۔ امام مالک کے متعلق آپ نے شاید سنا ہو کہ ان سے پوچھا گیا کہ اللہ تعالیٰ کے عرش پر استواء کی کیا حقیقت ہے؟ تو انھوں نے جواب میں فرمایا کہ استواء معلوم ہے، لیکن اس کی کیفیت مجہول ہے۔
اسی پر ان ساری باتوں کو قیاس کر لیجیے جو احوال غیب اور احوال آخرت سے متعلق قرآن مجیدمیں بیان ہوئی ہیں۔ ان کی اصل کیفیات ہم یہاں، بلاشبہ، نہیں سمجھ سکتے، لیکن اس کے معنی یہ نہیں ہیں کہ ہمارے لیے ان کا تصور بھی بالکل غیرمفید ہے۔ ایک دیہاتی کے لیے ایک نادیدہ شہر کے عجائب و غرائب کی تفصیلات اس اعتبار سے اس کے علم سے مافوق ہی ہوتی ہیں کہ وہ اپنے پیمانوں سے ان میں سے کسی چیز کو بھی نہ ناپ سکتا ہے نہ تول سکتا ہے، لیکن یہ تو نہیں کہہ سکتے کہ یہ تفصیلات اس کے لیے بالکل ہی بے سود ہوتی ہیں۔
اسی پر قیاس غیب کے حالات و معاملات کو کیجیے، ان کے بیان کے لیے ہماری زبان ناقص ہے اور ان کے احاطہ کے لیے ہماری عقل محدود، لیکن اگر ایک چیز کا ہم احاطہ نہیں کر سکتے تو اس کے یہ معنی کب ہیں کہ اس کا ہم سرے سے کوئی تصور ہی نہیں کر سکتے۔ تصور کر سکتے ہیں تو یہ تصور ہمارے علم میں بھی اضافہ کر سکتا ہے اور اگر ہم اس کی قدر کریں تو، جیسا کہ ہم نے عرض کیا، اس سے ہمارے اخلاق کی بھی تربیت ہو سکتی ہے۔ چنانچہ اہل ایمان کے متعلق قرآن مجید میں یہ بات بیان ہوئی ہے کہ جب جنت کی نعمتیں آخرت میں ان کے سامنے آئیں گی تو وہ خوش ہو کر کہیں گے کہ یہ تو وہی چیزیں ہیں جو ہمیں عطا ہوئی تھیں۔ ظاہر ہے کہ یہ پہلے انھی آیات کے پردے میں ملی تھیں جن کو قرآن میں متشابہات سے تعبیر کیا گیا ہے۔
متشابہات کے لفظ سے کہیں آپ اس شبہ میں نہ مبتلا ہوں کہ اس سے مراد شبہ میں ڈال دینے والی آیات ہیں۔ قرآن مجید میں کوئی چیز بھی شبہ میں ڈالنے والی نہیں ہے۔ متشابہات سے مراد پردۂ غیب کی وہی تفصیلات ہیں جن کے بیان کے لیے اس عالم کا تشبیہی جامہ مستعار لیا گیا ہے۔ ایک تو عقائد، اعمال، اخلاق اور موعظت کے اصول اور کلیات ہیں۔ ان کو قرآن نے محکمات سے تعبیر کیا ہے اور سارا دین انھی پر مبنی ہے۔ دوسرے احوال کی نادیدہ تفصیلات ہیں جو ہمارے عقل کے احاطہ سے تو باہر ہیں، لیکن عقل سلیم ان کے قبول کرنے سے انکار نہیں کر سکتی۔ محکمات پر ایمان رکھنے والے ان متشابہات سے بڑا فائدہ اٹھاتے ہیں، انھیں کبھی ان کے سبب سے کوئی تشویش لاحق نہیں ہوتی۔ البتہ جو لوگ سرے سے محکمات ہی کے معاملہ میں بے یقینی میں مبتلا ہوتے ہیں، وہ ان متشابہات کی آڑ لے کر سارے دین کے خلاف فتنے اٹھانے کی کوشش کرتے ہیں۔

 

بشکریہ ماہنامہ اشراق، تحریر/اشاعت نومبر 2014
مصنف : امین احسن اصلاحی
Uploaded on : Jan 01, 2016
2711 View