قرآن کیوں قطعی الدلالت نہیں ہے؟ ساجد حمید

قرآن کیوں قطعی الدلالت نہیں ہے؟

 

اس وقت علماے امت میں یہ نظریہ کہ قرآن قطعی الدلالت نہیں ہے، دو وجہ سے قائم ہے: ایک ہماراقدیم کلاسیکی فکر ہے، اور دوسرے جدید لسانی علوم اور فلسفہ ۔ہمارے خیال میں قرآن مجید کے بارے میں یہ راے کہ وہ قطعی الدلالت نہیں ہے ،علم کی انھی دو روایتوں کے غلبے سے پیداہوئی ہے۔ اس مضمون میں ہم جدید مغربی نظریات کی بات نہیں کریں گے، اس لیے کہ دور حاضر کے علما میں سے شاید کوئی بھی ان نظریات کی بنا پر قرآن کو ظنی الدلالت نہیں کہتا۔ جدید پڑھے لکھے اقل قلیل گروہ کے لیے جدید نظریات کا تجزیہ اگر ضرورت ہوئی تو پھر کسی مضمون میں کریں گے۔ اس مضمون کا مدار مسلمانوں کی عمومی علمی روایت پرہے۔

قدیم کلاسیکی نقطۂ نظر

کلاسیکی نقطۂ نظرسے ہماری مراد علماے اسلام کا وہ تصورِ علم و تحقیق ہے جو تقریباً آٹھویں سے تیرھویں صدی عیسوی کے درمیان پروان چڑھا، جو امت کے علمی سفر میں فکر یونان کے اثرات اور عقل و نقل کی ایک طویل کشمکش سے پیدا ہوا تھا۔
قدیم علما کی آرا کو ہم تین حصوں میں تقسیم کرسکتے ہیں:
۱۔ ابلاغ کے لیے تخلیق کیاگیا کلام قطعی الدلالت ہوتا ہے، البتہ منکرین خواہ مخواہ اس میں مین میخ نکال کر اس کی دلالت کو ماننے سے انکار کرتے ہیںیا متکلم کسی مقصد سے کسی بات کو کسی حکمت سے مبہم چھوڑ دے تو یہ الگ بات ہے (ابن قیم رحمہ اللہ، دیکھیے ان کی ’’کتاب الصواعق المرسلۃ علی الجہمیۃ المعطلۃ‘‘)۔
۲۔ کلام قطعی الدلالت بھی ہوتا ہے اور ظنی الدلالت بھی، احناف، شوافع اور مالکیہ وغیرہ کے فقہا اور اصولیین کی راے۔ فقہ اور اصول فقہ کی قدیم کتب میں آپ کویہ بحث مل جائے گی۔ علامہ تھانوی کی کتاب ’’کشاف اصطلاحات الفنون‘‘ میں قطع کے تحت ساری بحث کا ملخص کردیا گیا ہے ۔ یہ بحثیں الفاظ کی بعض بحثوں کے تحت بھی ملیں گی، مثلاً خاص قطعی ہوتا ہے کہ نہیں وغیرہ۔یہ محتاط اندازے کے مطابق کہا جاسکتا ہے کہ اہلِ سنت کے جمہور کی راے ہے کہ کلام دلالت میں ظنی بھی ہو تا ہے اور قطعی بھی۔
۳۔ کوئی کلام قطعی الدلالت نہیں ہوتا ۔اس لیے کہ الفاظ کے دس خصائص ایسے ہیں کہ وہ قطعیت حاصل ہی نہیں ہونے دیتے۔ یہ فرقہ جہمیہ معطلہ کی راے ہے، دیکھیے ابن قیم کی ’’الصواعق‘‘ اور امام رازی کی ’’التفسیر الکبیر‘‘ اور ’’المحصول‘‘، ان کتب میں جہمیہ کی راے بیان کرکے تنقید و توضیح کی گئی ہے ۔
مکتبہ فراہی، بالخصوص استاذ گرامی کی راے یہ ہے کہ ابلاغ کے مقصد سے تخلیق کیا گیا کلام اصلاً قطعی ہوتا ہے۔ ایہام ۱؂ کے مقصد سے تخلیق کیا گیا کلام بلاشبہ ذو معنی ہوتا ہے۔ البتہ ابلاغ کے لیے تخلیق کیے گئے کلام میں اس بات کا امکان مانا جاتا ہے کہ وہ دلالت میں ناقص ہو۔ چونکہ اللہ تعالیٰ نے کلام ابلاغ کے لیے تخلیق کیا ہے، اللہ تعالیٰ نے اسے اتمام حجت اور اختلافات میں فیصلوں کے لیے اتارا ہے ۔ خود اللہ نے اسے فرقان ، میزان اور الحق قرار دیا ہے اس لیے قرآن یقیناً قطعی ہے، بلکہ قرآن تو قطعی تر ہو گا، کیونکہ وہ قادرِ مطلق کا کلام ہے، جسے کلام پر انسانوں جیسی ناقص قدرت نہیں ، بلکہ کامل ترین قدرت حاصل ہے، اور وہ خطا، نسیان ونقص سے مبرا ہے۔
اس مضمون میں ہمارا موضوع مندرجہ بالا آرا کی توضیح و تنقید نہیں ہے، بلکہ ہم صرف اس موضوع پر بات کریں گے کہ امت کے جن طبقات نے کلام الٰہی کوظنی الدلالت مانا ہے، وہ کیوں مانا ہے؟بات کو آگے بڑھانے سے پہلے ضروری ہے کہ قطعی اور ظنی کے معنی بیان کر دیے جائیں تاکہ خلط مبحث پیدا نہ ہو۔قطعی کے یہ معنی بھی اسی کلاسیکی علم نے متعین کیے ہیں:
علماے احناف کے نزدیک قطعی دو قسم کا ہوتا ہے اور شوافع کے نزدیک ایک قسم کا:شوافع اور احناف کا اس بات پر اتفاق ہے کہ ثبوت اور دلالت میں قطعی وہ کلام ہو گا جس میں دوسرا احتمال اور نقیض سرے سے پایا ہی نہ جائے۔ مثلاً ’وَاللّٰہُ بِکُلِّ شَیْءٍ عَلِیْمٌ‘ میں کوئی دوسرا احتمال ۲؂ یا نقیض سرے سے پایا نہیں جاتا۔ شوافع کے برخلاف، احناف اس کلام کو بھی قطعی مانتے ہیں جس میں دوسرا احتمال تو پیدا کیا گیا، مگر دلائل سے رد کردیا گیا ۔ علامہ التفتازانی ’’شرح التلویح علی التوضیح‘‘ میں لکھتے ہیں:

...أن القطع یطلق علی نفي الإحتمال أصلاً، وعلی نفي الإحتمال الناشئ عن دلیل، وہذا أعم من الأول لأن الإحتمال الناشئ عن دلیل أخص من مطلق الإحتمال ونقیض الأخص أعم من نقیض الأعم. (۱/ ۶۱) 

’’...اصطلاحِ قطع کا اطلاق اس بات پر ہوتا ہے کہ (دوسرے)احتمال کی سرے سے ہی نفی مانی جائے، اور یہ مدلل احتمال ۳؂ کی نفی کے لیے بھی استعمال ہوتا ہے۔ یہ مدلل احتمال مطلق احتمال سے زیادہ عام ہے، کیونکہ مدلل احتمال مطلق احتمال سے خاص ہے، جبکہ عام (أعم) کے نقیض کے مقابلے میں نقیض الأخص زیادہ عام ہوتا ہے۔‘‘

یہ بات جاننے کے بعد کہ قطعی ہونا کیا ہوتا ہے، اب آگے بڑھتے ہیں اور یہ جاننے کی کوشش کرتے ہیں کہ بعض طبقات کے ہاں قرآن کو قطعی کیوں نہیں مانا گیا۔کیونکہ یہ باور نہیں آتا کہ قدیم علما کے سامنے یہ نصوص نہ ہوں کہ قرآن فیصلہ کرنے والی کتاب ہے، اس سے اللہ نے اتمام حجت کیاہے ،یعنی یہ فرقان اور میزان ہے، یہ الحق ہے اور آیات بینات کی حامل کتاب ہے۔ علماے امت کے ایک حصے نے قرآن کوکلی یا جزوی طور پر ظنی کہا ہے۔ ان کی یہ راے کیوں بنی اسے سمجھنا ضروری ہے۔ اس کے بغیر ہم ساری بات کو سمجھ ہی نہیں سکتے کہ یہ بحث کیوں اتنی اہم ہو گئی ہے۔ یہ بھی سمجھ میں آئے گا کہ موجودہ علماے امت کو قرآن کی یہ تعریف اور خوبی کیوں بری لگ رہی ہے کہ وہ قطعی الدلالت ہے۔آئیے، اسے دور اول کے ایک امام کے فرمودات کی روشنی میں سمجھتے ہیں۔

اصولیین کا ’البیان‘

امام شافعی ۴؂ نے اپنی کتاب ’’الرسالۃ‘‘ میں اصول فقہ کے اولین عہدکی معلومات فراہم کی ہیں کہ جمہور امت اس راے پر کیوں پہنچے۔ ’’الرسالۃ‘‘، ’’باب کیف البیان‘‘ سے شروع ہوتی ہے، جس کی تفصیل یہاں ممکن نہیں ہے۔ میں مختصراً چند اہم نکات یہاں بیان کیے دیتا ہوں:
۱۔ اللہ تعالیٰ نے تین چار طرح سے اپنی کتاب میں بیانِ شریعت فرمایا ہے:
(الف)کچھ چیزیں اللہ تعالیٰ نے نص میں بیان فرمائی ہیں، جیسے نماز، روزہ کی فرضیت، اور فواحش کا حرام ہونا وغیرہ، 
(ب)کچھ ایسے امور بیان کیے ہیں کہ ان کی کیفیت و طریقہ رسول کی سنت پر چھوڑدیا ہے، جیسے نماز کا طریقہ وغیرہ،
(ج)وہ امور جن کا بیان قرآن میں ہے ہی نہیں ، ان کے لیے قرآن میں صرف اطاعت رسول کو بتایا گیا ہے،
(د)وہ امور جن میں اجتہاد فرض کیا گیا ہے، مثلاً نماز میں قبلہ رخ ہونے کے حکم کی بنا پر ہر نئی جگہ پر تعینِ قبلہ کے لیے اجتہاد واجب ہو گا۔
۲۔ اللہ تعالیٰ نے چونکہ عربوں کی زبان میں کلام فرمایا ہے ، تو اس انسانی زبان کے مسائل قرآن میں بھی آ گئے ہیں۔ مثلاً مجاز اور حقیقت اور خاص وعام، ظاہر و باطن وغیرہ کے مسائل۔ ان میں بعض کا تعین ہم اپنے فہم و تعقل سے کرسکتے ہیں۔
۳۔ ایسے بعض مسائل میں قرآن کے بیان کا تعین سنت کرتی ہے۔ جیسے قرآن کے عام کو سنت خاص قراردیتی ہے، زانی کو سو کوڑے مارنے والی آیت عام ہے، مگر سنت اسے خاص کردیتی ہے کہ صرف کنوارے زانی مراد ہیں۔ بعض مواقع پر تخصیص خود قرآن ہی کردیتا ہے، مثلاً سوکوڑوں والی آیت کے بعد لونڈیوں کی آدھی سزا سے اس آیت کی تخصیص ہوئی کہ یہ سوکوڑوں والی آیت صرف آزاد زانیوں سے متعلق ہے۔
۴۔ سنت قرآن کے احتمالات میں سے ایک احتمال کو ترجیح دیتی ہے،مثلاً کھانے کی حرمتوں والی آیت کے دو احتمالات تھے، ایک یہ کہ اس آیت میں جو چیزیں گنوائی گئی ہیں، بس وہ حرام ہیں، اور دوسرا احتمال یہ تھا کہ جو چیزیں تم کھاتے ہو، ان میں سے یہ حرام ہیں سنت اس طرح کے احتمالات میں ایک کے حق میں فیصلہ کرتی ہے۔
۵۔ بعض آیات میں ان احتمالات کا فیصلہ کلام کے سیاق و سباق ہی سے ہو جاتا ہے۔لیکن یہ بیان کی ایک صنف ہے ، ہر بیان ایسا نہیں ہے۔گویا باقی بیانات کے لیے عملِ نبوی، تعین نبوی اور تخصیص نبوی،اور عقل وغیرہ کے استعمال کی ضرورت ہے۔
یہ نکات ہیں، جو ’’الرسالہ‘‘ کے پہلے جزو میں بے شمار مثالوں سے واضح کیے گئے ہیں۔ان سب مثالوں میں یہ بات اگرچہ لفظوں میں نہیں کہی گئی، مگر بین السطور ثابت کی گئی ہے کہ قرآن میں احتمالات کے ایک سے زیادہ امکانات ہیں۔مثلاً سو کوڑوں والی آیت کی جو توجیہ امام شافعی نے کی ہے، وہ صاف بتاتی ہے کہ قرآن کا بیان ہم امتی نہیں سمجھ سکتے، اللہ کے نبی ہی سمجھ سکتے ہیں، کیونکہ آیت تو بیاہے اور کنوارے زانی میں فرق نہیں کررہی ہے ،لیکن نبی اکرم نے اس کی تعیین یہی کی ہے کہ اس سے کنوارے زانی مراد ہیں ۔ایسا ہی ان کابیان چور کی سزا میں ہے کہ قرآن تو بلا تفریق ہر چور کے ہاتھ کاٹنے کا کہہ رہا ہے، مگر سنتِ نبوی ربع دینار ۵؂ سے کم پر ہاتھ نہیں کاٹ رہی ۔ یہ ساری بحث اس بات کو واضح کرنے کے لیے کی گئی ہے کہ قرآن مجید میں احتمالات کا تعدد پایا جاتا ہے۔اس کے اپنے الفاظ تو کچھ کہہ رہے ہیں، لیکن اس سے مراد کچھ اور ہے، کیونکہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم آیات کو غلط تو نہیں سمجھتے ۔ ان میں سے بعض احتمالات کو شانِ رسالت ہی سمجھ سکتی تھی۔ بعض کو ہم دوسری آیات یا اپنے علم وعقل کی مدد سے سمجھ سکتے ہیں۔خودقرآن کے الفاظ ان میں ہماری مدد نہیں کرتے۔ لہٰذا امام شافعی کے فراہم کردہ تمام آیات کے ان لاتعداد مقامات کا استقراء یہ ثابت کرتا ہے کہ قرآن کا کلام ان مؤیدات کے بغیر فیصلہ کن مقام پر اپنے مخاطب کو نہیں لاتا۔
یہ وہ پہلی وجہ ہے، جو اس نظریے کے قیام کا باعث بنی ۔ یعنی قرآن کا متن کچھ کہہ رہا تھا، مگر سنت نے اس کے دوسرے ہی معنی نکال کر بتا دیے۔ یا خود قرآن کے دوسرے مقام نے اس کے معنی بدل کے رکھ دیے، جس سے ناسخ و منسوخ کا مسئلہ پیدا ہو۔اس لیے قرآن کوان چیزوں کے تعین کے لیے بیانِ نبوی وغیرہ کی ضرورت ہے ۔ وہ خود یہ کام نہیں کرتا۔امام شافعی کے یہ فرمودات لگتا ہے کہ جمہور کے لیے ’کانت القاضیۃ‘ (فیصلہ کن)بن گئے۔ سب عقلا، فقہا اور فلاسفہ ان کے سحر میں اسیر ہو گئے ۔ اس کتاب نے تقریباً تمام اہل ظاہر، اور اہل فقہ کو جکڑے رکھا ہے اور آج بھی اس کی گرفت ڈھیلی نہیں پڑنے پاتی، حالاں کہ یہ کلام الٰہی کی دلالت کی بحث نہیں تھی، بلکہ یہ شرائع بیان کرنے کی وضاحت تھی۔اس لیے آپ کو اس کتاب کے پہلے جزو میں جہاں یہ بیان کے مباحث سمجھائے گئے ہیں، وہاں باربار ایک بحث ملے گی کہ نبی کی اطاعت فرض کی گئی ہے۔تاکہ نبی اکرم کی تخصیصات کے ماننے کو واجب قرار دیا جائے۔ بہرحال امام شافعی رحمہ اللہ کی اس دراز بحث سے یہ بات واضح طور پر متعین ہو جاتی ہے کہ قرآن مجیدکے بہت سے مقامات کو سمجھنے کے لیے سنتِ نبوی، دوسری آیات اور اپنے عقل وعلم کے سوا چارہ نہیں ہے۔ اس وقت روایتی علم کے مؤیدین کا یہی مسلک ہے۔حجیتِ حدیث وسنت پر لکھی جانیوالی تمام کتب الا ماشاء اللہ اسی مسلک کی تقریر و تصویب اور توضیح و تنقیح کرتی نظر آتی ہیں کہ حدیث و سنت کے بغیر قرآن سمجھ میں آ ہی نہیں سکتا۔ اس لیے کہ اس کی دلالت اپنے مفہوم پر قطعی اور حتمی نہیں ہے۔

فلاسفہ کی عقلیات

یونانی فلسفہ نے اہل اسلام کو ویسی ہی تحدیات (challanges) دی تھیں، جیسی آج کے مغربی افکار دے رہے ہیں۔ دینی تصورات بالخصوص عقائدمعرض اعتراض میں آگئے تھے۔فکر یونان کے علم کا مرکز ومحور حقیقتِ مطلقہ کی تلاش (ontology) تھی۔ حقیقت مطلقہ سے ان کی مراد وہ مادی یا غیر مادی حقیقت تھی جس سے تمام کائنات وجود میں آئی تھی۔پھر سوفسطائیوں (sofists) نے یہ بات سقراط سے پہلے تک منوالی ہوئی تھی کہ حقیقت کا ادراک ناممکن ہے۔ سقراط اپنی تربیت اور اٹھان میں سوفسطائی تھا، لیکن اس نے ایک بات پر اہل علم کا اعتماد بحال کرا دیا تھا کہ سوالات کی عقلی تنقیح سے اشیاکی حقیقت تک پہنچا جاسکتا ہے۔ اس کے لیے اس نے عقلی تجزیہ سے اشیاکی تعریف کی داغ بیل ڈالی تاکہ شے کی حقیقت کوبیان کیا جائے۔ اس کے بعد ارسطو نے تجربی یا حسی علم (empirical method) کو استعمال کیا، لیکن افلاطون کی سقراطی فکر غالب رہی۔یعنی محض عقلی تفکر (reasoning) سے اشیا کی حقیقت کا ادراک ہو سکتا ہے۔ جسے فلسفہ کی اصطلاح میں rationalism کہا جاتا ہے۔
جب یہ باتNeo-platonism کی صورت میں مسلمانوں کے ہاں آئی تو انھوں نے بھی reasonہی کو حقائق کا مدرِک مانا۔بلکہ الکندی، فارابی، بو علی سینا اور ابن رشدوغیرہ کے مطابق علم کے باقی تمام ماخذ و ذرائع ظنی ہیں، بس یہ تعقل ہی یقینی ذریعۂ علم ہے۔ چنانچہ تمام مسلم اور غیر مسلم عرب فلاسفہ اسی کے اسیر رہے، سوائے چند ایک کے جن کو ہم سائنس دانوں کے نام سے یاد کرتے ہیں۔امام شافعی کی شرائع کی بحث میں بیانِ قرآن، حدیث و سنت اور تعقل کے کئی سہاروں کا محتاج تھا۔ فلسفیوں نے اس کے ساتھ ایک اور چیز شامل کی جسے قضایا عقلیہ(عقل کے حتمی فیصلے،عقل کا فیصل شدہ علم۶؂) کہا جاتا تھا۔
ارسطو اور سقراط کی منطق اور عقلیت نے سوچنے کا جو ڈھنگ دیا تھا، مسلمان فلاسفہ اسی ڈھنگ سے سوچنے لگے۔ اس نظریۂ علم کے تحت تعقل کی ایک طویل سرگرمی شروع ہوئی، جس میں بعض بحثیں الٰہیات تک جا پہنچی تھیں۔ اس فلسفیانہ تعقل سے پیدا نظریات قرآن کی بعض آیات سے متصادم تھے۔ اس ٹکراؤ کو جب علما مسلمان فلسفیوں کے سامنے بیان کرتے تو فلسفیوں کے پا س دو ہی راستے تھے یا یہ کہتے کہ قرآن غلط کہتا ہے یا اپنی بات سے رجوع کرتے۔ لیکن چونکہ ان کی بات ان کے نزدیک نہایت عقلی تجزیہ سے مستفاد تھی، اور ان کی راے میں عقل (reason) ہی حصول علم کا قطعی ذریعہ تھا، اس لیے ان کے خیال میں ان کا یہ عقلی علم تو غلط نہیں ہو سکتاتھا۔ دوسری طرف قرآن منز ل وحی ہے، اس لیے وہ اسے بھی غلط نہیں کہہ سکتے تھے، اگر فلسفی یہ کہہ دیتے کہ ہمارا عقلی قضیہ درست ہے، قرآن کا بیان غلط ہے تو امت انھیں کافر قرار دے دیتی ۔ اس لیے ایک درمیانی بات کہی گئی، وہ یہ کہ کلام الٰہی بھی وہی بات کررہا ہے جو ہم فلسفی کہہ رہے ہیں، لیکن چونکہ اللہ تعالیٰ نے انسانی زبان میں کلام کیا ہے ، اور خدا کا علم و حکمت لامحدود ہے۔ چنانچہ الفاظ کے تنگ نائے کی بنا پر اس کی دلالت تم پر واضح نہیں ہے ۔ 
فلسفی کہتے: ہمارے خیال میں اللہ تعالیٰ بھی وہی بات کررہے ہیں جو ہم فلسفی کررہے ہیں۔ لیکن، چونکہ کلام کی دلالت جیسے کہ تمھارے اصولی علما بھی مانتے ہیں کہ قطعی نہیں ہے ، اس لیے تمھیں ہماری بات کا ٹکراؤ محسوس ہورہا ہے۔ حقیقت میں یہ ویسا ہی ٹکراؤ ہے جیسا سوکوڑوں والی آیت میں زانی سے مراد کنوارا زانی لینے سے ہوتا ہے، وہاں تم اسے بیان مان لیتے ہو، کیونکہ وہ رسول اللہ کا قول ہے اور ہماری بات کو ٹکراؤ کہتے ہو، اس لیے کہ وہ ہماری راے ہے۔جس طرح یہ سمجھ نہیں آتا کہ زانی کا مطلب کنوارا زانی کیسے ہو سکتا ہے ، اسی طرح تمھیں ہماری بات سمجھ نہیں آتی کہ فلاں آیت سے جو بات نکل رہی ہے ، اس سے مراد وہ ہے جو ہم نے فلسفیانہ سوچ بچار سے سمجھی ہے یا جو آپ لوگ سمجھ رہے ہیں ۔سچی بات یہ ہے کہ قرآن کا ظاہر اور ہے، اس کا باطن اور ہے۔یہ الفاظ بھی اصولین ہی سے مستعار تھے۔ چنانچہ صدیوں پر پھیلی عقل و نقل کی یہ کش مکش اس نتیجہ تک پہنچی کہ ’دلالۃ اللفظیۃ ظنیۃ‘ اور ’قضایا العقلیۃ قطعیۃ‘۔ مراد یہ کہ لفظی دلالت ظنی ہے، جبکہ عقل کا تجزیہ، اس کا حاصل کردہ علم یا فیصلے حتمی اور قطعی ہیں۔
مراد یہ تھی کہ قرآن کے بیانات کی وجہ سے ہم سے مت جھگڑو ۔ یہ بات تو ثابت ہے کہ قضایا عقلیہ قطعاً ثابت ہیں۔ لیکن قرآن کی اپنے الفاظ پردلالت تو تم خود بھی مانتے ہو کہ ظنی ہے، اس لیے تم سمجھ نہیں پا رہے کہ ہماری عقلی دریافت قرآن ہی کا بیان ہے، اس سے متصادم نہیں ہے ۔
فقہا کا منہاج بھی اسی سے ملتا جلتا تھا۔مثلاً ’’الرسالہ‘‘ ہی کا حوالہ پھر دیتا ہوں اس آیت کو دیکھیں:

وَالْمُسْتَضْعَفِیْنَ مِنَ الرِّجَالِ وَالنِّسَآءِ وَالْوِلْدَانِ الَّذِیْنَ یَقُوْلُوْنَ رَبَّنَآ اَخْرِجْنَا مِنْ ھٰذِہِ الْقَرْیَۃِ الظَّالِمِ اَھْلُھَا.)النساء۴: ۷۵)

امام شافعی اس آیت کے بارے میں رقم طراز ہیں:

وفیہا، وفی: الْقَرْیَۃِ الظَّالِمِ اَہْلُہَا خصوص، لأن کل أہل القریۃ لم یکن ظالمًا، قد کان فیہم المسلم، ولکنہم کانوا فیہا مَکْثُورِین، وکانوا فیہا أقل.

’’اس میں آیت کے اس جملہ کہ اس بستی کے باشندے ظالم ہیں،میں باشندے خاص ہے، کیونکہ اس بستی (مکہ) کے تمام باشندے ظالم نہیں تھے، ان میں مسلمان بھی تھے، البتہ کافر زیادہ اور مسلمان کم تھے۔‘‘

یہ خصوص جو امام شافعی نے نکالا ہے، یہ بھی تعقل سے نکالا گیا ہے۔یا اس علم سے نکالا گیا ہے جو کلام سے باہر تھا، جس کے پاس یہ علم نہیں ہو گا جو امام شافعی کے پاس تھا، تو وہ اس آیت سے یہی نتیجہ نکالے گا کہ سب باشندے ظالم تھے۔یعنی ایک عقلی قضیہ نے آیت کو اس کے ظاہر سے ہٹا دیا ہے۔
مختصر یہ کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت، قرآن کواس کی ظاہری دلالت سے ہٹا دیتی ہے، امام شافعی کا مکہ کے باشندوں کے بارے میں علم قرآن کے ظاہر سے ہٹا دیتا ہے، تو ایسے ہی فلسفیوں کے قضایا عقلیہ قرآن کو اس کے ظاہر سے ہٹا سکتے ہیں۔ متاخرین کے لیے یہ ایک واقعاتی حقیقت ہے، جس کا سامنا قرآن کو عہد نبوی سے تا حال ہے۔

صوفیہ کی سیرِ باطن

فلسفیوں کی اسی عقلیت کو اہل تصوف نے صوفیانہ رنگ دیا۔عقلیت (reason) چونکہ داخلی غورو فکرکا نام ہے، جس کا باہری دنیا (empirical data) سے قطعاً تعلق نہیں ہوتا۔ اسی تعقل کو انھوں نے سیر باطن کا نام دیا۔لیکن یہ سیر باطن کسی فلسفی کی نہیں، بلکہ ایک عبادت گذار، تارک دنیا، فقرپسند زہد و ورع سے متصف آدمی کی سیر باطن تھی۔ جو چلوں، فاقہ کشیوں، ریاضتوں اور عبادتوں سے اپنے داخل کی تمام کثافتوں ، لذات و مفادات کو دھو کر اسے پاکیزہ کر لیتا تھا۔ پھر ان کثافتوں سے پاک حالت میں اپنے داخل کی سیر اسے مشاہداتِ حقہ سے نوازتی تھی۔
اس سیرباطن کو فلسفی کے غوروخوض سے الگ کرنے کے لیے انھوں نے اپنا نام صوفی رکھا۔کیونکہ فلسفی پاکیزہ حالت میں غور نہیں کرتا تھا۔ اس لیے صوفیہ نے اپنے آپ کو الگ نام دیا۔ واضح رہے کہ لفظِ ’صوفی‘ میں صوف وہی ہے، جو یونانی لفظ Philo-sophyکا دوسرا حصہ ہے، یعنی دانش و عقلیت، فلسفیوں نے اسے س کے ساتھ املا کیا اور صوفیوں نے ص کے ساتھ۔ اگرچہ ایک طویل کوشش کے بعد اسے صُوف(اون)اور اصحابہ صفہ سے جوڑدیا گیا تاکہ تصوف اور فلسفہ کا تعلق پوشیدہ رہے۔ لیکن تصوف کے وحدت الوجود کو سمجھنے والے اوراسکندریہ کے فلسفی plotinus کے نظریۂ احد (The Theory of The One, Intellect & Soul) کو جاننے والے یہ سمجھ سکتے ہیں کہ کس طرح ایک فلسفیانہ راے کو مشاہداتِ باطنی کا نام دیا گیا۔
یہ سیرباطن کے قضایا بھی عقلی قضایا کی طرح حتمی ہیں، اس لیے کہ یہ صالحین کے باطنی مشاہدات اور واردات ہاے قلبی ہیں۔ یہ عقلی قضایا سے بھی قوی تر ہیں، اس لیے کہ یہ پاکیزہ صفت صوفیہ کا غور اور سیر باطن ہے۔ ۷؂ فلسفہ کی طرح صوفیہ کے مشاہدات بھی قرآن سے ٹکراتے تھے ، اس لیے انھوں نے کہا کہ قرآن کی حقیقت اس کو سمجھ نہیں آسکتی، جس نے ہمارا سلوک نہ اپنایا ہو۔نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے دو علم وراثت میں چھوڑے تھے: ایک ظاہری جو علما کے پاس ہے اور ایک باطنی جو صوفیہ کے پاس ہے ۔ کچھ صوفیہ نے یہ تک کہہ دیا کہ قرآن عامۃ الناس کے لیے آیا ہے اور کچھ نے وہی تاثر دیا کہ معرفت سے محروم آدمی آیات کی حقیقی دلالت پا ہی نہیں سکتا۔ اگلی سطور میں ہم تصوف پر تبصرہ کم کریں گے، کیونکہ ہمارے موضوع کا تعلق main streamعلمی دھاروں سے ہے، تصوف اگرچہ قرآن کو کونے میں لگانے کے عمل میں حصہ دار ہے، لیکن اس کو یہ جرأت جن علوم نے دی، اس مضمون میں وہی زیر بحث ہیں۔بعض جدید صوفیہ کو یہ کہتے سنا گیا ہے کہ قرآن یا سادہ دین میں ذہین عناصر کے لیے رکھا ہی کیا ہے۔

اس علمی ورثہ کا اثر

یہ بات علوم اسلامیہ کی تاریخ کے ماہرین جانتے ہیں کہ منطق فکر یونان کے آنے سے پہلے ہی اسلامی فقہ میں مستعمل تھی۔ قیاس، اجماع وغیرہ کا ذکر خلفاے صحابہ کے زمانے سے چلا آتا ہے۔ان کے پیچھے منطقی اصول کارفرما تھے، جن کو ابھی منطق کا نام نہیں ملا تھا۔ لہٰذا اس بے نام منطقی اصولوں نے اصول فقہ کی بنیاد رکھی تھی۔امام شافعی کی ’’الرسالۃ‘‘ اوراصول کی دیگر کتب اسی منطق پر لکھی گئی ہیں۔اجماع اور قیاس کا ذکر جوان کتب میں ملتا ہے، وہ اسی منطق پر مبنی تھا۔یہ منطق محض استخراجی و استقرائی نہیں تھی، بلکہ اس کے ساتھ ساتھ لسانی وفقہی اصولوں، نظریۂ علم اور الٰہیات کے تصورات سے مملو تھی۔یہی وجہ ہے کہ ہم اس عہد میں بلاغت اور نحو کی بہت سی بحثوں کو بھی اصولی کتابوں میں دیکھتے ہیں ۔۸؂ 
فقہا کے اولین عہد ہی میں دین اور قرآن کو سمجھنے کے جو اصول بنائے گئے، وہ عملِ صحابہ ،قیاس، نظریۂ علم، بلاغت، نحو،اصول الفقہ،قضایا عقلیہ وغیرہ کی روشنی میں بنائے گئے۔ جن کے اولین آثار ہم امام شافعی کی کتب میں دیکھتے ہیں، اورجو تیرھویں صدی عیسوی تک اپنے عہد شباب کو پہنچے۔قرآن چونکہ نطق میں ہے، اس لیے صرف، نحو اور بلاغت کو ان اصولوں کا جزو بننا ضروری تھا۔قیاس و اجماع خلفاے راشدہ کا طریق تھا، انھیں بھی شاملِ اصول رکھا گیا ۹؂ ۔ دیگر علوم بعد میں پیدا ہوئے، مگر چونکہ وہ قضایا عقلیہ کا درجہ پاچکے تھے، اس وجہ سے حتمی اور ناقابل تردید تھے ،اس لیے ان کو بدیہیات کا درجہ ملا، لہٰذا وہ لابدی طور پر اصولوں کا حصہ بنے۔
اس سارے علمی عمل (dialectical process) سے مسلمانوں کا ایک طرزِ فکر (approach) وجود میں آیا۔ جسے آج اسلامی روایت کا نام دیا جارہا ہے ۔اس اسلامی روایت میں قرآن اگرچہ اولین ماخذ ہے، لیکن اس کے بہت سارے نسخ کرنے والے ناسخ اور تخصیص کرنے والے مخصص اس اسلامی روایت نے پیدا کردیے ہوئے ہیں، مثلاً متنِ قرآن جو مرضی کہتا رہے، اجماع کے خلاف اس کا مفہوم نہیں لیا جاسکتا۔قرآن کا اپنا جملہ جو معنی دے رہا ہے ،وہ نہیں مانا جائے گا، اس لیے کہ اس آیت کا مدعا اس معنی سے مختلف نہیں لیا جاسکتا جو حدیث یا ماثور تفسیر میں طے پا چکا ہے یا اہل تصوف کے مشاہدات سے ٹکراتا ہے۔اور اب یہ کہا جارہا ہے کہ جو اس علمی روایت سے متصادم ہو گا، وہ بھی نہیں لیا جائے گا۔ گویا یہ اجماع اور یہ حدیث، تصوف اور تفسیر ماثور، علمی روایت سب کو قرآن کے ناسخ اور مخصص کی حیثیت حاصل ہو گئی۔ اس نظریۂ علم نے قرآن کو محکوم اور باقی علوم کو حاکم بنا دیا تھا۔اب قرآن پر ان حاکموں کی بات سے ہٹ کر کوئی بات جب پیش کی جاتی ہے، اور متنِ قرآن کو دلیل میں پیش کیا جاتا ہے تو اس کے رد کے لیے اس سے زیادہ مؤثر ہتھیاراور کیا ہو گا کہ قرآن کی بات تو سمجھ ہی نہیں آ سکتی، کیونکہ اس کی دلالت ظنی ہے۔ یہ قول عہد حاضر میں اتنی شدید شد و مد سے کہا گیا کہ ایک تضاد فکر پیدا ہوا:
حدیث بھی الفاظ میں ہے، تفسیر ماثور بھی الفاظ میں ہے، فقہاے امصار کے تمام اجماع بھی الفاظ میں ہیں، لیکن ان کو الفاظ میں ہونا ظنی نہیں بناتا ۔مگر، چہ بوالعجبی کہ یہ حسن وخوبی صرف قرآن میں ہے کہ وہ الفاظ میں ہونے کی وجہ سے ظنی ہے۔حدیث ، تفسیر ماثور، فقہی اجماع لفظوں میں ہونے کے باوجود ہر صاحبِ علم کو قطعی علم سے نوازتے ہیں، مگر قرآن بے چارہ قطعی علم دینے سے قاصر ہے (العیاذ باللہ، ثم العیاذ باللہ)۔ اس تضاد کی وجہ یہ ہے کہ اس علمی ورثہ نے حدیث، اجماع، قیاس ،تفسیر ماثور، اصول فقہ وغیرہ کو عقلی قضایا کا درجہ دیا تھا۔جبکہ قرآن تو کسی تعقل سے گزر کر وجود میں نہیں آیا تھا، اس لیے اسے یہ قطعیت مل ہی نہیں سکتی تھی۔اس لیے قرآن قطعی نہیں ہے، لیکن یہ تمام علوم قطعی ہیں۔
یعنی زیادہ واضح الفاظ میں یو ں کہیے کہ یہ علوم جو انسانوں نے تخلیق کیے، وہ قطعی ہیں،اور جو کلام اللہ نے تخلیق کیا، وہ اس علمی روایت میں ظنی ہے۔ یہاں از راہ جلبِ اطمینان عرض کردوں کہ یہ بات میں محض ذاتی تجزیہ سے برآمد نہیں کررہا ہوں، بلکہ اصول کی کتب میں لکھی ہوئی ہے۔ مثلاً سردست علامہ شاطبی رحمہ اللہ کے ایک حوالہ پر اکتفا کرتا ہوں۔ علامہ صاحب ’’الموافقات‘‘ میں لکھتے ہیں:

إِنَّ أُصُوْلَ الْفِقْہِ فِي الدِّینِ قَطْعِیَّۃٌ لَا ظَنِّیَّۃٌ، وَالدَّلِیْلُ عَلٰی ذٰلِکَ أَنَّہَا رَاجِعَۃٌ إِلٰی کُلِّیَّاتِ الشَّرِیْعَۃِ، وَمَا کَانَ کَذٰلِکَ؛ فَہُوَ قَطْعِيٌّ. بَیَانُ الْأَوَّلِ ظَاہِرٌ بِالِاسْتِقْرَاءِ الْمُفِیْدِ لِلْقَطْعِ. وَبَیَانُ الثَّانِيْ مِنْ أَوْجُہٍ: أَحْدُہَا: أَنَّہَا تَرْجِعُ إِمَّا إِلٰی أُصُوْلٍ عَقْلِیَّۃٍ، وَہِيَ قَطْعِیَّۃٌ، وَإِمَّا إِلَی الْإِسْتِقْرَاءِ الْکُلِّيِّ مِنْ أَدِلَّۃِ الشَّرِیْعَۃِ، وَذٰلِکَ قَطْعِيٌّ أَیْضًا، وَلَا ثَالِثَ لِہٰذَیْنِ إِلَّا الْمَجْمُوْعُ مِنْہُمَا، وَالْمُؤَلَّفُ مِنَ الْقَطْعِیَّاتِ قَطْعِيٌّ، وَذٰلِکَ أُصُوْلُ الْفِقْہِ. (۱/ ۱۷) 
’’دین میں فقہ وفہم کے اصول قطعی ہیں، ظنی نہیں ہیں۔ اس کی دلیل یہ ہے کہ یہ کلیات الشریعہ پر مبنی ہیں، تو جو چیز ایسی ہو، وہ قطعی ہوتی ہے۔ پہلی بات کی وضاحت اس استقرا سے ظاہر ہو جاتی ہے، جو قطعیت کا فائدہ دیتا ہے، اور دوسری بات کی وضاحت درج ذیل چند پہلوؤں سے ہوگی:ایک یہ کہ یہ تمام اصول یا تو عقلی بنیادوں پر قائم ہیں جوقطعی ہوتے ہیں یا ادلہ شرعیہ کے کلی استقرا پر قائم ہیں ، وہ بھی قطعی ہوتا ہے، اور تیسرا پہلو تو بس ان دونوں کا مجموعہ ہے، اور (یہ بات تو واضح ہی ہے کہ )قطعی امور کا مجموعہ بھی قطعی ہوتا ہے، اوریہ مجموعہ اصول الفقہ ہیں۔‘‘

یہ اقتباس میرے اوپر بیان کردہ تجزیہ کے حق میں بین ثبوت ہے ۔اصول فقہ، استقرا، کلیات، عقلیات اور ان کے مجموعے، سب قطعی ہوتے ہیں۔ فلاسفہ نے جو بات کہی تھی کہ ’قضایا العقلیۃ قطعیۃ‘، اس کاطوطی اصول الفقہ میں سر چڑھ کر بولتا رہا۔لہٰذا ظنی کا مقدر ہے کہ قطعی اس پر حاکم ہوگا۔ قضایا عقلیہ، اصول فقہ اور کلیات شریعہ سب کے سب قطعی تھے، اس لیے ظنی الدلالت قرآن پر حاکم تھے۔وہ اس کے ناسخ بھی ہیں، مخصص بھی ہیں اور حاکم بھی ہیں ۔ لہٰذایہ بوالعجبی وجود میں آئی کہ علیم وخبیر خالق کائنات کا کلام ظنی ٹھہرا اور ’وَمَآ اُوتِیْتُمْ مِنَ الْعِلْمِ اِلَّا قَلِیْلاً‘ ۱۰؂ کے مصداق خطا کے پتلے انسان کا علم اور کلام قطعی قرار پایا۔یہ اسی نظریۂ علم کی دین ہے جو آٹھویں سے تیرھویں صدی میں وجود پذیر ہوا۔
لہٰذا نحو،بلاغت، حدیث، تفسیرِ ماثور، کلیات وقواعد فقہ، اصول فقہ، عقلیات ، استقراے کلی، ان کا جموع العلم اور مشاہداتِ باطن، سب کے سب قطعی بدیہیات کا درجہ رکھتے تھے۔ لیکن قرآن کی آیات کو سنت ، قرآن کے دوسرے مقامات اور عقلی بدیہیات ظنی الدلالت ثابت کردیتے تھے۔ سب سے بڑھ کر یہ کہ قرآن کو تو خود رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ظنی کردیاتھا۔ یعنی قرآن کہتا ہے کہ زانی کو کوڑے مارو، لیکن سنت سو کوڑے مارنے کے بجاے شادی شدہ زانی کو رجم کرتی ہے ۔ تو امت کے قطعی علم کی روشنی میں ہر ایسی آیت درجۂ قطعیت سے گر جاتی ہے، جس کا احتمال سامنے آ جائے۔

بہ نظر غائر

اب اس عظیم علمی روایت کا ذرا بہ نظر غائر جائزہ لیتے ہیں کہ ہوا کیا ہے۔ مثلاً سورۂ نور کی دوسری آیت کہ زانی ’الزَّانِیَۃُ وَالزَّانِیْ فَاجْلِدُوْا کُلَّ وَاحِدٍ مِّنْہُمَا مِاءَۃَ جَلْدَۃٍ‘ (مرد و عورت زانیوں کو سو سو کوڑے مارے جائیں)۔ یہ آیت اس لیے ظنی ہے کہ سنتِ مطہرہ نے اس سے مراد صرف کنوارے زانی لیا ہے اور قرآن ہی کی ایک آیت نے اسے آزاد لوگوں تک خاص کردیا ہے ۔ امت کے اس علمی روایت کی روشنی میں، جسے ہم نے اوپر واضح کیا ہے، جب کسی آیت کے ساتھ ایسا ہو جائے تو وہ آیت محتمل المعانی ہوئی، لہٰذا ظنی قرار پائی۔
سوچنے کی بات یہ ہے کہ آیا نبی اکرم نے کہیں خود فرمایا ہے کہ میں اس آیت کی تخصیص کررہا ہوں۔یاکیا آپ نے اپنی پوری حیاتِ طیبہ میں قرآن کی کسی بھی آیت کے بارے میں یہ بات کبھی کہی کہ میں اس کی تخصیص یا اسے منسوخ کررہا ہوں۔ میرے علم کی حد تک قرآن مجید آپ کی ذاتِ والا صفات کو یہ حق نہیں دیتا۔سورۂ یونس میں ہے: 

... قُلْ مَا یَکُوْنُ لِیْٓ اَنْ اُبَدِّلَہٗ مِنْ تِلْقَآئِ نَفْسِیْ اِنْ اَتَّبِعُ اِلَّا مَا یُوْحٰٓی اِلَیَّ اِنِّیْٓ اَخَافُ اِنْ عَصَیْتُ رَبِّیْ عَذَابَ یَوْمٍ عَظِیْمٍ.(۱۵) 
’’ان سے کہو کہ میرے لیے یہ روا نہیں کہ میں قرآن کومحض اپنی طرف سے بدل دوں میں تو بس جو کچھ میرے اوپر وحی ہوتا ہے، اس کی پیروی کرتا ہوں، میں اپنے رب کی نافرمانی کی بنا پر قیامت کے عظیم دن کے عذاب سے ڈرتا ہوں۔ ‘‘

حدیث کا ذخیرہ بھی اس سے خالی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے کبھی یہ کہا ہو کہ میرے نزدیک اس آیت کے معنی وہ نہیں ہیں جو اس سے بظاہر معلوم ہورہے ہیں یا میں اس کی تبیین ۱۱؂ کر رہا ہوں، کیونکہ قرآن کا مدعا صاف نہیں ہے۔ اگر ایسا ہے تو پھرسنت سے قرآن کی اس تخصیص کے تصور ہی کے بارے میں سوال پیدا ہوجاتا ہے کہ یہ آیا کہاں سے ہے؟یہ اسی قطعی علم سے آیا ہے جس کے بارے میں امام شاطبی کا حوالہ آپ نے پڑھا ۔اسی علم نے یہ اصول بنایا کہ جب قرآن کے ظاہر معنی سے کوئی چیز اسے ہٹا دے تو فوراً سمجھ لو کہ وہ لفظ یا آیت ظنی ہے۔ یہ منطق غیر منصوص ہے، لیکن عقلیات پر مبنی ہے، اس لیے غیر منصوص ہونے کے باوجود قطعی ہے، اسے کوئی ہاتھ نہیں لگا سکتا۔ مدرسۂ فراہی کا جرم ہی یہی ہے کہ وہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر تخصیص اور نسخ کرنے کے بلاثبوت لگائے گئے عقلیات کے اس الزام کو باطل قرار دے رہے ہیں۔ان کا کہنا ہے:نہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے تخصیص و نسخ کیا ہے اور نہ آیات ظنی ہوئی ہیں۔یہ امت کے قطعی علم نے خودساختہ چیزوں کا الزام نبی پاک کے سر دھر دیا ہے۔جسے اب امت کا اجماعی علم مانا جاتا ہے، جسے خود قرآن سے بڑھ کر قطعی کہا جاتا ہے، اس لیے کہ وہ عقلیات کے زمرے میں آتا ہے۔ 
اب دوسرے پہلو سے اسی آیت کو دوبارہ بطور مثال لیں۔ آپ تمام فقہی کتابیں اٹھا لیں۔ سب فقہا اجماع کرتے دکھائی دیں گے کہ اس آیت کا مطلب تو یہی ہے کہ کنوارے اور شادی شدہ، دونوں طرح کے زانی مراد ہیں۔ تمام علمی تاریخ میں تمام علما کا اس بات پر اجماع ہے کہ آیت کا مطلب تو ایک ہی ہے ۔ مجھے ایک بھی فقیہ نہیں ملا جس نے کہا ہو کہ یہ آیت اپنی ذات میں محتمل الوجوہ ہے۔لیکن جیسے ہی سنت سے رجم کا عمل سامنے آتا ہے تو اپنے فہم کو قطعی مان کر آیت کو مجبوراً ظنی درجے میں ڈال دیا۔ گویا اس آیت کے ظنی ہونے کا مسئلہ اس لیے سامنے آیا کہ سنت نے بعض زانیوں کو رجم کیا ہے۔یہاں یہ بات پھر دہرا دوں کہ سنت نے یہ نہیں کہا کہ سو کوڑوں والی آیت کی تخصیص کا یہ فیصلہ میں کررہی ہوں۔ یہ بات خود ہماری علمی روایت نے تشکیل دی۔
اب سوال پیدا ہوتا ہے کہ سنت کی اس رجم والی سزا کو اس آیت کے ساتھ کس نے جوڑا؟ اللہ کے رسول نے یا علما نے؟ میں نے عرض کیا کہ نبی علیہ السلام کی طرف سے ایک اشارہ بھی نہیں کہ میں اس آیت کے تحت عمل کررہا ہوں تو مطلب یہ کہ یہ کام کہ یہ فلاں سنت فلاں آیت کے تحت آتی ہے، یہ کام بھی علما کی عقلیات نے کیا ۔ نبی معصوم نے دونوں کام نہیں کیے:نہ آیت کی تخصیص کرنے کا نہ رجم کے عمل کو اس آیت سے متعلق کرنے کا۔دونوں عمل علما کے قضایا عقلیہ نے کیے اور اس کا الزام — معاذ اللہ — قرآن پر اور نبی پاک پر تھوپ دیا۔ تو بجاے اس کے کہ اپنے قضایا عقلیہ کو درست کیا جاتا، ہم نے عقلیات کے اعتماد پر یہ کہنا شروع کردیا کہ قرآن کی دلالت ہی ناقص ہے۔
اسی طرح کی مثال آیتِ قروء میں بھی ہے:

وَالْمُطَلَّقٰتُ یَتَرَبَّصْنَ بِاَنْفُسِھِنَّ ثَلٰثَۃَ قُرُوْٓءٍ وَلَا یَحِلُّ لَھُنَّ اَنْ یَّکْتُمْنَ مَا خَلَقَ اللّٰہُ فِیْٓ اَرْحَامِھِنَّ.(البقرہ ۲: ۲۲۸)

اس آیت کو قطعی ماننے میں ایک لسانی منطق(وہی عقلی قضایا)رکاوٹ بن گئی، حالاں کہ اگر اس آیت کو کلام کے تمام اجزا کے ساتھ ملا کر پڑھا جائے تو ’قروء‘ کے ایک معنی آپ سے آپ ترجیح پا جاتے ہیں۔ مثلاً اسی آیت میں فرمایا کہ تین ’قروء‘ تک انتظار کریں، اور ان کے پیٹ میں جو اللہ نے پیدا کیا ہے، اسے نہ چھپائیں، آیا عورت کا پیٹ سے ہونا طہر سے واضح ہوتا ہے یا حیض سے، یہ قرینہ کافی تھا کہ رہنمائی کرتا، لیکن چلیے یہ مان لیتے ہیں کہ یہ ناکافی ہے، اب عدت کے احکام کو دوسری جگہ دیکھیں۔ ارشاد ہے:

وَالّآءِیْ یَءِسْنَ مِنَ الْمَحِیْضِ مِنْ نِّسَآءِکُمْ اِنِ ارْتَبْتُمْ فَعِدَّتُھُنَّ ثَلٰثَۃُ اَشْھُرٍ.... (الطلاق۶۵: ۴) 
’’یعنی تمھاری وہ عورتیں جو حیض سے مایوس ہو چکی ہیں، ان کے بارے میں اگر شک ہو تو عدت تین ماہ ہے۔‘‘

ان دو مقامات سے واضح ہے کہ عدت کے شمار اور تعینِ اولاد کے لیے ایک ہی چیز بیان ہوئی ہے وہ حیض ہے، قرآن مجید کا مدعا دو ٹوک ہے۔لیکن اس کے باوجود کلام ظنی ہی مانا جائے گا، اس لیے کہ امت کے اس قطعی عقلیات والے علم نے ایک اصول دیا تھا، جسے کسی کی جرأت نہیں کہ غلط قرار دے۔ وہ اصول یہ تھا کہ لفظ مشترک المعنی ہو تو احتمال پیدا ہو جاتا ہے۔ اب جب احتمال پیدا ہو گیا ہے تواس کو رد کربھی دیں، تب بھی آیت ظنی ہی رہے گی۔ لہٰذا جو پاپڑ چاہے بیل لیں یہ آیت اب تاقیامت ظنی ہے۔ اس لیے کہ خطا سے پاک عقلیت کا قطعی فیصلہ ہے کہ مشترک المعنی لفظ ظنی ہوتا ہے۔ اب قیامت تک کوئی رائے اس کو تبدیل نہیں کرسکتی ۔ اصول کی کتابوں میں جو لکھا گیا، وہ حرف آخر ہے۔ لہٰذا اس کے خلاف ہر چیز رد کر دی جائے گی۔
اس میں قابل توجہ بات یہ ہے کہ یہ اصول کہاں سے آیا کہ جب لفظ مشترک المعنی ہو، تو وہ ظنی ہوتا ہے۔یہ بھی اسی مقدس علم سے آیا ہے جسے عقلیات کا درجۂ معصومیت دیا گیاہے، اب یہ عقلیات چونکہ قطعی تھیں، ان کا انکار تو ہو نہیں سکتا تھا تو ملبہ بے زبان آیت پر گرا، اسے ظنی قرار دے دیا گیا۔ یہاں دیکھیے کہ مسلسل ایک ہی اصول ہے، جس کی یہ ساری کارستانی ہے، وہ اصول یہ ہے کہ علماکے تعاملِ علمی نے جو علم تخلیق کردیا ہے، وہ قطعی ہے، اسے تم چیلنج نہیں کرسکتے ، اس لیے کہ عقلیات یا عقلی قضیات حتمی اور یقینی ہوتے ہیں ۔ قرآن کو اس لیے عیب دار کیا جاسکتا ہے کہ یہ بات بھی امت کے عقلی قضایا نے قطعی ثابت کردی ہے کہ لفظی دلالت ظنی ہوتی ہے۔
یہ وہ تاریخ ہے جس کی ابتدا میں ’’الرسالہ‘‘ آپ کا استقبال کرتی ہے اور ان منطقوں کے شہر بے کراں میں آپ کو داخل کرتی ہے۔اس علمی رعب کے ساتھ کہ آپ مثالوں اور وضاحتوں کے شان دار طلسم میں ہوش ربائی کی عجیب و غریب کیفیت سے گزرتے ہیں کہ جس سے نکلنا صدیوں تک ممکن نہیں ہوا۔
یہ وہ علمی و فنی اسباب ہیں جن کا مختصر جائزہ ہم نے پیش کیا ۔ ان فنی علوم و اسباب کو علمانے تخلیق کیا ہے۔ چونکہ یہ قطعی ہیں، اس لیے امت کا ایک بڑا حصہ صدیوں سے یہ کہنے پر مجبور ہے کہ ان قضایا عقلیہ کے مقابلے میں قرآن بہرحال ظنی دکھائی دیتا ہے ۔ قرآن کی اسی (نعوذ باللہ)ظنیت کو حدیث کے حق میں استعمال کیا گیا ہے ۔ چونکہ قرآن کے نصوص ظنی ہیں، لہٰذا اطاعتِ رسول کے نصوص بھی ظنی ہیں ،اس لیے حدیث کو منوانے کے لیے امت پریہ ضروری ہے کہ قضایا عقلیہ سے سنت کو منوائے۔چنانچہ قرآن کو محتمل الوجوہ ثابت کرکے اسے سنت کا محتاج قرار دے تاکہ ابدالآباد تک حدیث کی ضرورت کو منوایا جاسکے۔
یہ عہدِ ماقبل استعمار کی مختصر داستان اس بات کو سمجھانے کے لیے شاید کافی ہو گی کہ پورا قرآن یا قرآن کی بعض آیات علما کے مطابق قطعی کیوں نہیں ہیں۔یہ بات بھی سمجھانے کے لیے کافی ہے کہ اس عہد میں مغربی افکار نے امت کا کیا حال کیا تھا۔روایتی اہل علم قدیم مغربی علم:یونانی فلسفہ کے زیر اثر پرورش پانے والے اس کلاسیکی علم کو قطعیت کا درجہ دے کر سینے سے لگائے ہوئے ہیں اور ان علوم اور عقلی فیصلوں کو جن کا ماخذ عقل انسانی، اور مغربی فلسفہ یونانی ہے، اسے قرآن و سنت پر حاکم مانتے ہیں۔
یہی یونانیوں اور مسلمانوں کے بنائے ہوئے علوم ہیں جو مسلمانوں کو قرآن کے بارے میں یہ تصور دے گئے کہ قرآن ظنی الدلالت ہے، خواہ جزوًا ، خواہ کُلاً۔چنانچہ اہل فقہ اور اہل حدیث نے تو جزوًا ظنی مانا مگر فلاسفہ ، جو مغربی علوم کے سحر میں گم تھے، نے اسے کلی معنی میں ظنی مان لیا، اور استدلال میں محدثین ، فقہا اور اصولیوں ہی کے کام سے مدد لی کہ الفاظ کی دلالت اپنے مدعا پر ظنی ہوتی ہے۔اس لیے کہ لفظ مشتر ک المعنی ہوتے ہیں، مجاز و حقیقت کا احتمال رکھتے ہیں، خاص و عام کے معنی میں آتے ہیں وغیرہ۔قرآن کے بارے میں یہ وہ مقدس اور قطعی سرمایۂ علم ہے، جس سے آج کا روایتی نظریہ تشکیل پاتا ہے۔اس علمی پس منظر کے علی الرغم کھڑے ہو کر اربابِ مدرسۂ فراہی یہ صدا لگاتے ہیں کہ واپس اس علم کی طرف آؤ جو علم خدا اور اس کے آخری رسول نے دیا تھا۔ ان کی دعوت یہی ہے کہ:

دستِ ہر نااہل بیمارت کند
سوی مادر آ کہ تیمارت کند

کچھ ماضی سے ناواقف لوگ جہمیہ معطلہ کے اس قضیے کو مانے بیٹھے ہیں کہ ’دلالۃ اللفظیۃ ظنیۃ‘ اور ’قضایا عقلیۃ قطعیۃ‘ کہ کلام ہمیشہ ظنی الدلالت ہوتا ہے۔ انھیں یہ معلوم ہی نہیں کہ یہ جہمیہ معطلہ جیسے ایک گمراہ فرقہ کا نظریہ ہے کہ کلام قطعی الدلالت ہوتا ہی نہیں ہے۔ اہل سنت نے اس کے رد میں لکھا ہے، جس میں امام رازی، امام قرافی، امام شاطبی ،صدر الشریعۃ اور ابن قیم رحمہم اللہ سرفہرست ہیں ۔ان کے رد نے یہ بات ثابت کی کہ تمام کلام ظنی نہیں ہوتے، کلام کا ایک بڑا حصہ قطعی ہوتا ہے۔ جبکہ ابن قیم نے یہ بات ثابت کی کہ تمام کلام جو ابلاغ اور تعلیم کے لیے لکھے جائیں وہ دلالت میں قطعی ہوتے ہیں۔امام رازی اور ابن قیم کا حوالہ اوپر دے چکا ہوں۔ علامہ قرافی نے ’’محصول‘‘ کی شرح ’’نفائس الاصول فی شرح المحصول‘‘ لکھی ہے۔ امام شاطبی کی ’’موافقات‘‘ میں یہ بحث دیکھی جا سکتی ہے۔ اہل سنت کے نقطۂ نظرکہ الفاظ کی دلالت قطعی بھی ہوتی ہے کو صاحب ’’مختصر التحریر شرح الکوکب المنیر‘‘ ابن نجار یوں بیان کرتے ہیں:

ولنا ألفاظ نقطع بمدلولہا بمفردھا. وتارۃ بانضمام قرائن أو شہادۃ العادات، ثم نمنع معارضۃ الدلیل العقلي القطعي للدلیل الشرعي.(۱/ ۲۹۳)
’’ہمارے نزدیک الفاظ کبھی اپنی ذات ہی کی بنا پر اپنے مدلول پر قطعی دلالت کرتے ہیں، اور کبھی وہ قرائن اور عادی امور کی شہادت کے مل جانے سے قطعی دلالت کرتے ہیں، اسی سے ہم عقلی قطعی دلائل کے معارضے کو شریعت کے ساتھ معارضے کا دفاع کرتے ہیں۔‘‘

اسی طرح صدر الشریعۃ لکھتے ہیں۔ درج ذیل عبارت ’’شرح التلویح علی التوضیح‘‘ سے ہے:

مسألۃ قیل: الدلیل اللفظي لا یفید الیقین؛ لأنہ مبني علی نقل اللغۃ، والنحو، والصرف، وعدم الإشتراک، والمجاز، والإضمار، والنقل... فکل ترکیب مؤلف من ہذہ المشہورات قطعي کقولہ تعالٰی: اِن اللّٰہَ بِکُلِّ شَیْءٍ عَلِیْمٌ، ونحن لا ندعي قطعیۃ جمیع النقلیات، ومن ادعی أن لا شيء من الترکیبات بمفید للقطع بمدلولہ فقد أنکر جمیع المتواترات کوجود بغداد فما ہو إلا محض السفسطۃ والعناد.(۱/ ۲۴۶۔۲۴۷)

’’مسئلہ: یہ کہا گیا ہے کہ لفظی دلیل قطعیت کا فائدہ نہیں دیتی، کیونکہ یہ لغات، نحو، صرف کی نقل اور اشتراک، مجاز، اضمار اور نقل (یعنی لفظ کے اپنی وضع سے ہٹ کر کسی اور معنی کی طرف منتقل ہونا... (وضاحت کے بعد نتیجہ نکالتے ہیں...) چنانچہ ان مشہور و معروف امور پر مبنی ترکیبات قطعی ہوں گی، جیسے اللہ تعالیٰ کا یہ فرمان کہ ’اِنَّ اللّٰہَ بِکُلِّ شَیْءٍ عَلِیْمٌ‘۔۱۲؂ ہم یہ دعویٰ نہیں کرتے کہ تمام نقلیات قطعی ہوتی ہیں۔ مگر جو یہ دعویٰ کرے کہ ترکیباتِ لسانی میں سے کوئی چیز بھی اپنے مدلول پر قطعی نہیں تو اس نے پھر تمام متواترات کا رد کر دیا جیسے بغداد کی موجودگی کا انکار کرنا، تو یہ طرز عمل فسطائیتِ محض اور عناد ہے۔‘‘

چنانچہ آج کے جو مسلمان کلام کو کامل معنی میں ظنی مانتے ہیں، ان کے پیچھے اہلِ سنت کا علم نہیں ہے، بلکہ جدید مغربی نظریات کا اثر ہے۔ ہمارے نزدیک یہ کوئی گناہ کی بات نہیں ہے ، اس لیے کہ ’الحکمۃ ضالۃ المومن‘ کے تحت حکمت غیر مسلموں سے حاصل کی جاسکتی ہے اس شرط کے ساتھ کہ وہ قرآن وسنت اور دین حق کی ہادم نہ ہو۔ البتہ یہ بات سمجھ اور ناسمجھی کی ضرور ہے کہ کیا بات قبول کرنے کی ہے اور کیا نہیں ہے ۔
مغرب میں مذہب کو سائنس نے شکست دینے کے لیے تاحال نہایت کاری ضرب لگا رکھی ہے۔عہد جدید کے آغاز میں سائنس کے نئے بانیوں نے علم کا نیا نظریہ دیا جس میں اصل الاصول یہ کارفرما تھا کہ دین سمیت ہر چیز بحث کے لیے کھلی ہے، اور یہ کہ fact صرف وہی ہے جو یا حواس کے مشاہدہ میں آجائے یا آثار و شواہد اور tests یا تجربات سے ثابت کردیا جائے۔عقلیت کے وہ تمام مقدمات و قضایا غلط ہیں، جن کو شواہد یا حواس کی تائید حاصل نہ ہو۔ گویا آج کی دنیا میں سائنس اور فلسفہ نے عقلیتِ محضہ کو رد کردیا ہے۔ لیکن انسانی علوم (humanities) میں ابھی بھی یہ طریقہ چلتا ہے اگرچہ ان میں empericismسے بھی مدد لی جاتی ہے ۔
مغرب کے اس عہد میں نئے علوم پیدا ہوئے۔ قدیم علوم کو نقد کی میزان میں تولا گیا، جس کے لیے جدید مناہج تحقیق پیدا ہوئے۔ جو نئے علوم پیدا ہوئے، ان میں ہمارے موضوع سے متعلق علوم میں مغربی اصول تفسیر (hermunetics)، لسانیات (linguestics)، نظریات نقدِ ادب (literary theory) اور فلسفۂ لسان philosopy of) (languageجیسے علوم نہایت اہم ہیں۔ ان میں سے بہت سے علوم پر ابھی اسی عقلیت محض (pure reason) کا غلبہ ہے۔لیکن ہمارے ہاں یہ فیشن ہے کہ جب کوئی بات مغرب سے آجائے تو وہ قضایا عقیلہ کی طرح بے چون و چرامان لی جاتی ہے۔ 
ان سے استفادہ کرنے والوں سے ہماری درخواست یہ ہے کہ وہ یہ یاد رکھیں کہ یہ علوم بھی عقل انسانی کی دریافت و اپچ ہیں۔انسانی علوم و معارف مسلسل ترقی پذیراور بایں وقت مسلسل زوال پذیر رہتے ہیں۔ان میں سب پر حاکم کلام الٰہی ہے۔ اس لیے ان علوم سے استفادہ ضرور کریں، لیکن ہوشیار رہ کر۔اس لیے کہ یہ تمام علوم مذہب کے مدفن پرپیدا ہوئے ہیں، اور کہیں ہم اس تدفین میں ان کے مددگار نہ بن جائیں۔ اہل مغرب میں تورات و انجیل کی حکومت ختم کرنے کے لیے اس سے قوی کیا بات ہو گی کہ یہ راے منوائی جائے کہ ان کے معانی کو ہم آج سمجھ ہی نہیں سکتے، کیونکہ نہ وہ ہمارے عہد کی تصنیف ہیں اور نہ کلام کی دلالت حتمی ہوتی ہے۔ذرا غورکریں کہ ہم مسلمانوں کے قضایا عقلیہ قرآن و سنت کی روشنی کے باوجود کہاں کہاں ٹھوکریں کھاتے رہے، مغرب میں یہ روشنی اب سرے سے موجود ہی نہیں ہے، تو ان کے قضایا عقلیہ کا حال کیا ہوگا!۔ بقول علامہ اقبال:

وہ قوم کہ فیضانِ سماوی سے ہو محروم
حد اس کے کمالات کی ہے برق و بخارات

________

۱؂ صنعتِ ایہام، ایک زمانے میں ہندوستان کے شاعروں میں مقبول صنعت تھی، جس میں شعر بظاہر کچھ اور حقیقت میں کچھ اور کہہ رہا ہوتا تھا۔ایہام کے معنی ہیں: وہم پیدا کرنا۔
۲؂ احتمال کے معنی ہیں کہ عبارت اس معنی کو اٹھا رہی ہے یا قبول کررہی ہے، تو جب عبارت ایسی ہو کہ وہ دو معنوں کو قبول کررہی ہو، تو وہ ظنی الدلالت ہو گی۔مثلاًسورۂ فاتحہ کی پہلی آیت میں لفظ ’الحمد‘ شکر اور تعریف، دونوں کا برابر احتمال رکھتا ہے اس لیے یہ اپنے معنی میں ظنی ہو گا۔
۳؂ مدلل احتمال ترجمہ ہے: ’الإحتمال الناشئ عن دلیل‘ یعنی بربناے دلیل پیدا ہونے والا احتمال۔
۴؂ محمد بن ادریس الشافعی ۱۵۰۔ ۲۰۴، یعنی ۷۶۷ تا ۸۲۰ عیسوی۔
۵؂ یعنی دینار کا چوتھا حصہ۔
۶؂  Propositions made by the faculty of reason after a careful, accurate and systematic thinking.

۷؂ مثلاً دیکھیے کشف المحجوب ص ۴۲۹ تا ۴۴۸ ترجمہ از فضل الدین گوہر۔ مزید تفصیل کے لیے دیکھیے امام غزالی کی ’’المنقذ من الضلال‘‘۔
۸؂ مثلاً الفاظ کی دلالت: عبارۃ النص، إشارۃ النص، اور أمر للوجوب وغیرہ۔

۹؂ واضح رہے کہ صحابہ کے قیاس اور اجماع میں فرق تھا، وہ انھیں قرآن پر حاکم نہیں مانتے تھے۔ ان کے ہاں یہ شریعت کے ماخذ بھی نہیں تھے۔ ان کے تمام اقوال و افادات کو جمع کرکے دیکھیں تو یہ بات واضح ہو گی کہ ان کے نزدیک ان کی اہمیت صرف precedent lawکی تھی۔ یہ جان رکھیے کہ ان کے قیاس اور فقہی اجما ع کی پیروی کے تمام بیانات قاضیوں اور حاکموں کو لکھے گئے تھے۔خود حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ اور نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کے مابین راے سے فیصلہ کرنے والی بات بطور عاملِ یمن کے ہوئی ہے نہ کہ بطور شارع۔ اس مکالمے کا آغاز نبی اکرم کے اس سوال سے ہوتا ہے: ’کیف تقضي إن عرض قضاء‘؟ (اگر کوئی case آ گیا تو فیصلہ کیسے کرو گے)؟ چنانچہ اس میں راے اور قیاس صرف قانون کے مجرمین اور ان کے مقدمات پر اطلاق کے لیے استعمال ہوتا تھا۔ اس سے زیادہ قیاس و اجماع کی ان کے اصول میں کوئی اہمیت نہیں تھی،لیکن بعد میں یہ شریعت کاماخذ بنا دیا گیا۔ صحابہ رضوان اللہ علیہم اجمعین کا دامن ان شاء اللہ اس عمل سے پاک ہے کہ انھوں نے قیاس یا اجماع کو قرآن پر حاکم بنایا ہو۔
۱۰؂ بنی اسرائیل ۱۷: ۸۵۔ ’’اورتمھیں تھوڑا علم ہی دیا گیا ہے۔‘‘
۱۱؂ ہماری یہ علمی روایت قرآنِ مجید میں بیان کردہ تبیین کے معنی یہی کرتی ہے، اس کی طرف تلمیح کررہا ہوں۔
۱۲؂ الانفال ۸: ۷۵۔

____________
بشکریہ ماہنامہ اشراق، تحریر/اشاعت نومبر 2016
مصنف : ساجد حمید
Uploaded on : Jan 02, 2018
4458 View